۲ آذر ۱۴۰۳ |۲۰ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 22, 2024
News ID: 362111
19 اگست 2020 - 15:59
ماہ محرم

حوزہ/ اس مرتبہ شاید قدرت نے یہ موقعہ فراہم کیا ہے کہ ہم ظاہری چکا چوند میں نہ کھو کر باطنی اور حقیقی عزاداری کی مثال پیش کریں اپنے گھر میں تمام گھر والوں کے ساتھ بیٹھ کر۔

تحریر: مولانا سید حمید الحسن زیدی، مدیر الاسوہ فاؤنڈیشن سیتاپور

حوزہ نیوز ایجنسی | عزاء سرکار سید الشہدا علیہ السلام ہماری ذمہ داری ہمارا حق اور ہمارا طرۂ امتیاز ہے اس کے بغیر ہمارا وجود بلا پانی کی مچھلی جیسا ہے ہم نے اسی فضا میں آنکھ کھولی ہے اور اسی کے سایہ میں مرنا چاہتے ہیں ہم کسی حال میں عزا سے سمجھوتہ نہیں کرسکتے لیکن اس سال پوری دنیا میں جو وبا کی کیفیت ہے اس سے سب بخوبی واقف ہیں خاص طور پر ہمارے ملک میں گزشتہ پانچ مہینوں سے وبائی بیماری کی وجہ سے لاک ڈاؤن پھر انلاک اور پھر مذہبی پروگراموں کے سلسلے میں حکومت کی جو گائڈ لائن رہی ہیں ان سے تقریبا تمام عزادار منجملہ بانیان مجالس سامعین اور ذاکرین سب واقف ہیں اور سب کو اس بات کا اعتراف ہے کہ موجودہ صورت حال میں حکومت کی گائڈ لائن کی مخالفت کے کیا اثرات ہو سکتے ہیں اور ہماری عزاداری کو اس سے فروغ ہوگا یا مزید نقصان ہوگا۔
اس صورت حال پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے جذبات میں کئے گئے فیصلہ کے دور رس نقصانات کو مد نظر رکھنا ضروری ہے۔
اس صورت حال میں ہمارے علما اور مراجع نے بھی تمام طبی اصول و ضوابط کے ساتھ عزاداری برپا کرنے کے احکام دئیے ہیں اور ان طبی قوانین کی روشنی میں وہاں کی عزادار حکومتوں نے بھی عزاداری کے سلسلے میں بہت سی پابندیاں عائد کی ہیں جن کی رعایت کے لیے علمااورمراجع نے بھی ہدایات جاری کی ہیں۔ 
اسی طرح ہمارے ملک میں بھی الگ الگ علاقوں میں الگ الگ پابندیاں عاید ہیں جن کے بارے میں علاقائی سطح سے لیکر صوبائی اور ملکی سطح تک گفتگو کرکے مسائل سلجھانے کی کوشش مناسب بلکہ حتیٰ الامکان ضروری  ہے لیکن ضد پر آکراپنے سے  کوئی فیصلہ ہمارے ساتھ دوسروں کے لیے بھی مشکل پیدا کرسکتا پے۔  
اب تک ہم نے اپنی زندگی میں کھل کر عزاداری کی ہے جس پر شکر خدا بجالاتے ہوئے آئندہ پھر سے اس سے بہتر عزاداری کی دعا کے ساتھ یہ تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے کہ اب تک ہم نےاپنے حساب سے عزا کے تمام ظاہری اسباب فراہم کیے ہیں اگرچہ یہ احساس بھی کرتے رہے ہیں کہ باطنی اور حقیقی عزاداری کا حق ادا نہیں کرپارہےہیں  جس کی وجہ سے عزاخانوں میں تو رونق رہتی ہے لیکن آنکھوں میں گریہ کی وہ کیفیت نہیں ہوتی اور ہمارے دل میں شہادت امام علیہ السلام کی وہ گرمی نہیں پیداہوپاتی جس کی ہمیں خود اپنےسے توقع ہوتی ہے۔
 اس مرتبہ شاید قدرت نے یہ موقعہ فراہم کیا ہے کہ ہم ظاہری چکا چوند میں نہ کھو کر باطنی اور حقیقی عزاداری کی مثال پیش کریں اپنے گھر میں تمام گھر والوں کے ساتھ بیٹھ کر انھیں عزاداری کی اہمیت اور اس کی ذمہ داریوں سے آگاہ کریں اور ذکر کربلا بیان کریں یا دوسروں سے سن کر ان پر یہ سوچ کر بے تحاشا گریہ کریں کہ کربلا میں  امام کی کمسن بچی کو رونے کی بھی آزادی نہیں تھی اہل حرم کے رونے پر تازیانوں سے اذیت دی جاتی تھی۔  
اس طرح کی عزا کی برکت سے یقین ہے کہ یہ وبا بھی دور ہوگی اور ہماری ظاہری عزاداری کے بھی راستے کھلیں گے اس طرح ہماری عزاداری عادت نہ رہ کرواقعی عبادت بن جائے گی ورنہ اگر حکومتی نمائندوں کے کے ساتھ پے درپے میٹینگ میں کسی طرح کی اجازت نہ ملنے کے باوجود ہم ضد پر اڑے رہے اور بانیان مجلس نے بغیر سامعین یا ذاکرین کی مرضی کے حکومتی گائڈ لائن کے خلاف کوئی لایحہ عمل بنا لیا تو اس پر عمل پیرا کرنے کے لیے کسی ذاکر یا سامع کو آمادہ کرنا اپنے علاوہ دوسروں کے لیے بھی مشکل ایجاد کرے گا اس سے دوسروں کے لیے بھی مسایل پیدا ہوں گے۔
ہر شخص اپنے عمل میں آزاد ہے دوسروں پر اپنے جذبات تھوپ کرانھیں پابند بنانا عقلمندی نہیں ہے  لہذا جب تک حکومت کی طرف سے کوئی مثبت اشارہ نہ ملے  حکومتی نمایندوں سے بات چیت کے لیے میٹینگ رکھیں لیکن دیگر امور کے لیے اجتماعی فیصلے خود ساختہ میٹینگ میں نہ کریں یا کم از کم دوسروں پر انھیں مسلط نہ کریں 
اور اس صورت حال میں جہاں سب کو معلوم ہے کسی کی چلنے والی نہیں ہے دوسروں خاص طور پر ذاکرین کو پابند نہ بنائیں لیکن  اگر واقعی ان کے بیانات کو قابل استفادہ سمجھتے ہیں توسوشل میڈیا کے ذریعہ (ریکارڈ شدہ یا لائیو) استفادہ کریں یہ ذاکرین سامعین اور بانیان مجالس سب کے لیے مفید اور کار آمد ہوگا اور کسی کے لیے کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوگا۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .